اسلام آباد (نیوزڈیسک) سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے 2 خطوط سامنے آگئے۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے 13 اور 17 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے دو خطوط سامنے آئے ہیں، خطوط میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے سپریم جوڈیشل کونسل میں بیٹھنے پر اعتراض کیا گیا اور مؤقف اپنایا کہ ’ان کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اس کی وجہ سے اتنے بڑے فورم پر جسٹس ڈوگر کو نہیں بیٹھنا چاہیئے‘، اس کے علاوہ دونوں ججز کی طرف سے قواعد و ضوابط پر بھی کئی اعتراضات کیے گئے۔
خطوں میں کہا گیا کہ اگر ترامیم اپنالی گئیں تو یہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کردے گی، 26 ویں ترمیم ابھی سپریم کورٹ میں چیلنج ہے، کونسل کے دو ممبران کا مستقبل بھی اس کیس کے ساتھ طے ہونا ہے، مجوزہ ترمیم سے عدلیہ کی آزادی کو کمزور، شفافیت کو محدود اور اختیارات کو ایک شخص تک محدود کیا جا رہا ہے، ترامیم بین الاقوامی اقدار کے بھی خلاف ہیں، ترامیم خطرناک اس لیے بھی ہیں کہ ان کا دائرہ اختیار مبہم ہے، یہ مخصوص ججز کی آواز دبانے کیلئے استعمال ہو سکتی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے سپریم جوڈیشل کونسل میں بیھٹنے پر پہلے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے 13 اکتوبر کے خط میں اور اس کے بعد پھر 17 اکتوبر کے خط میں بھی یہ اعتراض اٹھایا لیکن چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے 18 اکتوبر کے اجلاس میں جسٹس ڈوگر کو بیٹھنے کی اجازت دی اور اجلاس میں قواعد و ضوابط بھی منظور کروا لیے گئ-
Comments